Page-1
|
Page-2
| Page-3
| Page-4
| Page-5 | Page-6 |
Page-8 | Page-9 |
BaKhabar Download
pdf (2.2 mb)
|
کسوٹی
میرے ایمان کی --- Seraj Akram <serajakram@yahoo.com>
میری ٤ سال کی بیٹی اکثر رات
میں سوتے وقت میرے پاس آ جاتی ہے اور کہانی سننے کی ضد کرنے
لگتی ہے اور اسکی ضد ٣-٤ کہانی سننے کے بعد ہی ختم ہوتی ہے. کہانی بھی
اسکے پسند کی ہونی چاہئے ، یعنی ہر روز الگ الگ اسکی فرمائش ہوتی ہے -
کبھی ہاتھی کی، تو کبھی شیر کی تو کبھی بھالو کی تو کبھی سانپ کی. اور
مجھے اسکی ضد کے آگے اسکی مرضی کے مطابق کہانی سنانا پڑتا ہے. اس وقت اس
کمزور دماغ کو کافی مشقّت سے بلکل تازہ کہانی شیر ، بھالو، بلی ، کتا اور
سانپ کی بناکر پیش کرنا ہوتا ہے. کہانی سننے کے بعد پھر وہ سونے چلی جاتی
ہے دوسرے روز نئی کہانی سننے کی امید لئے ہوئے.کچھ دن بعد میری بیگم نے اسکوحضرت محمّد۴ اور دوسرے پیغمبروں اور صحابیوں کی کہانی دن میں اسکو سنایا، پھر اسکے بعد اسکی فرمائش بھی بدل گئی، اب وہ کسی صحابی اور پیغمبرکی کہانی کی ضد کرنے لگی. پھر ایک رات میں نے اسکو حضرت طلحہ رضی اللہ کے بارے مے سنایا جب وہ الله کے رسول کی فرمان پر اپنا خوبصورت باغ اور اس میں بنا گھر الله کے راہ میں دے دیا. اور جب وہ باغ کے باہرسے بیوی کو آواز دیا کے گھر سے اپنا سامان لیکر نکل آؤ ، یہ گھر کا میں نے سودا کر لیا ہے اور جب بیوی کو ساری بات معلوم ہی تو اس نے کمال دلیری سے کہا کے آپ نی بہترین سودا کیا ہے اور سامان لیکر گھر سے نکل آی. دوسرے دن جب میں آفس سے گھر فون کیا تو میری بیٹی نے فون اٹھاتے ہی سلام کرنے کے فورا بعد بولی کے آپ الله کی رہ میں گھر کب دینگے؟ میں اسکے اس سوال پر حیرت میں پڑ گیا اور اسکا جواب دینا مشکل ہو گیا ، پھر بھی میں نے اسکو بتایا کے بیٹا میرے پاس تو یہاں گھر نہیں ہے تو میں گھر کہاں سے دوں الله کے راہ میں . پھر وہ فورا معصومیت سے بولی جس گھر میں ھملوگ رہ رہے ہیںوہ گھر تو ھملوگ کا ہی ہے اس لئے یہی گھر الله کی راہ میں دے دیجئے. میں نے اسکو کافی سمجھانے کی کوشس کی کے یہ گھر ہمارا نہیں بلکے کراۓ کا گھر ہے اسکا مالک کوئی اور ہے لیکن وہ ماننے کو تیار نہیں ہوئی اسکی ضد بس یہی تھی کے اس گھر میں ہم رہتے ہیں اور یہ گھر ہمارا ہے اور اسکو ہم الله کی راہ میں دے دیں جس طرح حضرت طلحہ رض نے صرف ایک حکم پر اپنا قیمتی گھر باغ کے ساتھ الله کے راہ میں دے دیا تھا. پھر اسکو میں اس طرح سے سمجھانا چاہا کے بیٹا اگر میں اس گھر کو الله کی رہ میں دے دونگا تو ہم لوگ رہیںگے کہاں. اسکا جواب اس نے فوراً یہ دیا کہ ہم لوگ امین انکل (میرے دوست) کے گھر جا کر رہینگے لیکن یہ گھر آپ الله کی راہ میں دے ہی دیجئے . بہت ہی مشکل سے میں اس دن اسکو بہلانے کی کوشس کیا اور کسی طرح بات کو روک پایا. میں اسکو اور کیا سمجھاتا!!! میں کیسے اسکو بتاتا کے بیٹا می جو مسلم ہونے کا دعوا کرتا ہوں اس دعوے میں کتنی سچائی ہے اسکو کوئی اور نہیں جانتا سواۓ الله کے. میں اسے کیسے سمجھاتا کے میرا ایمان اتنا کامل نہیں جتنا صحابیوں کا تھا. میرے دل میں وہ تڑپ نہیں جو انلوگوں میں تھی، میری محبّت میرے مال سے زیادہ ہے جبکے ان صحابیوں کی محبّت الله اور اسکے رسول سے زیادہ تھی. میں اسے کیسے سمجھاتا کے دعوا تو میں بھی پورے مسلم کا کرتا ہوں پھر بھی میرے دل میں وہ تڑپ نہیں کے الله کی رہ میں اپنا گھر دے دوں. میرا تو ایمان اتنا کمزور ہے کے الله کی راہ میں اول تو کچھ دینے کا دل ہی نہیں کرتا اور کبھی کبھار کوئی مجبور اور دکھی انسان کو دیکھ کر اگر دل پگھلتا ہے تو کچھ دینے سے پہلے یہ سوچتے ہیں کے اس سے میرا کیا فائده ہوگا ، وہ انسان میرا کتنا احسان مانے گا اور آخر میں الله سے کیا ملیگا اس عظیم صدقہ کا بدلہ. اور پھر اس بے مثال صدقہ اور خیرات کا ذکر اکثر دوستوں اور رشتےداروں میں ہوتا ہے. میں اسے کیسے سمجھاتا کے گھر تو دینا دور کی بات بنک میں رکھا ہوا فالتو ٢-٤ لاکھ روپیہ میں سے کسی کو ١٠-٢٠ ہزار روپیہ نہیں دے سکتا . میں اگر اس میں سے کسی کو دے دوں تو پھر اس میں جو کمی ہوگی اسکی بھر پا ی کون کریگا. الله جب دیںگے تب دیںگے فی الحال تو میرا بنک بالنس کم ہو جاےگا . یہ اور بات ہے کے نصیب پر میرا ایمان ہے اور انسان جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے الله کا دیا ہوتا ہے، نصیب کا لکھنے والا وہی ہے، سبکو دینے والا وہی ہے پھر میں اپنی محنت کی کما ئی جو اپنے ارمانو کو پورا کرنے کے لئے رکھا ہوا ہے اسکو الله کی راہ میں کیسے خرچ کر دوں. قران اور حدیث کی تعلیم اپنی جگہ ، اسکا احترم اپنی جگہ، لیکن جینے کے لئے مجھے سماج کے ساتھ جینا ہوگا اور سماج کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں ، دعوا الله اور اسکے رسول سے محبّت کا عمل سماج کے روایت کے مطابق ، میں اس معصوم کو کیسے سمجھا وں کے میں جو دعوا کرتا ہوں اس دعوے کے مطابق عمل کرنا میرے بس میں نہیں، اس لئے نیہں کے یہ ممکن نہیں بلکے میرا ایمان کمزور ہو چکا ہے ، میں اپنے نفس کا غلام ہو گیا ہوں،ڈھونگی ہو گیا ہوں، میرا دعوا چاہے کچھ بھی ہو لیکن عمل اکثر اسکے خلاف ہوتا ہے ، یہ ہے میرے ایمان کی حقیقت، میرے ایمان کی کسوٹی |
میں اسے کیسے سمجھاتا کے میں الله کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا لیکن سماج میں با اثر لوگوں کےظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتا،اسلام ہمارا نظام حیات ، ہر مسئلے کا حل لیکن اس پر عمل نہیں کر سکتا ، قران ہماری زندگی کی روشنی ، ہدایت کا نور لیکن اس ہدایت پر بھی میرا چلنا مشکل، حدیث حکمت کا خزانہ ، اسلام کی تفسیر لیکن افسوس اسکی بھی اہمیت میرے دل سے کم ہو گی، قرآن اور حدیث صرف مثال دینے کے لئے رہ گیا ہے عمل کی توفیق کہیں کھو گئ ہے. میں اسے کیسے سمجھاتا کے ایمان اور مسلمان کا دعوا میرا کھوکھلا ہے، ، مجھے اپنے گھر سے ، اپنے بڇے سے اپنے مال سے اپنے شان سے پیار ہے، الله اور اسکے رسول سے بھی پیار لیکن شاید اتنا نہیں کے اسکے لئے میں اپنا قیمتی گھر الله کی راہ میں دے دوں. کیا میرا روزہ رکھنا، نماز پڑھنا الله سے محبّت کی نشانی نہیں. میں اپنے دل کی حقیقت اسے کیسے سمجھاتا کے بیٹا اگر میرے پاس ایک گھر نہیں بلكہ اگر ١٠ گھر بھی ہوتا تو میں ایسا نہیں کر پا تا . میرا ایمان ناقص ، میرا دعوا جھوٹا ، میری نماز ادھوری، میرا روزہ دکھاوا، میرا حج شان کے علامت ، میرا کلمہ بے معنی، میرا ہر کام میرے دنیا کے ارمانوں کے گرد گھومتا ہے، میں دین کے لئے اتنی بڑی قربانی کیسے دے دوں. پھر ایک خوفناک وسوسہ ابھرتا ہے دل میں، کیا میں منافق ہوں، کیا میرا مال میرے الله اور اسکے رسول سے زیادہ پیارا ہے. اگر میں پیارے رسول کے وقت میں زندہ ہوتا تو کیا اپنا قیمتی مال الله کی رہ میں دے پاتا یا پھر منافق کی طرح مختلف بہانوں سے اپنے مال کو بچا بچا کر رکھتا اور الله اور اسکے رسول کا حمایتی ہونےکا جھوٹا دعوا کرتا ... اگرنہیں تو پھر آج ہمارے ایمان میں وہ پختگی کیوں نہیں.الله اور اسکے رسول سے اتنی محبّت کیوں نہیں ، دعوے میں وہ صداقت کیوں نہیں. کیا اسلام پر عمل کرنے اور دین کی خدمات کرنے کی ذمےداری صرف انہی لوگوں کی تھی، اور ہم صرف کلمہ پڑھکر جنّت کے حقدار ہو گئے.کیا منافق لوگ سارے مر گئے یا آج بھی ہم میں سے ہزاروں منافق کی خصلت لئے ہوئے مسلمان ہونے کا جھوٹا دعوا کے ہوئے ہیں جنہیں الله اور اسکے رسول سے کہیں زیادہ انہیں اپنے مال اور اولاد، اپنے شان اور شوکت سے ہے. میں اسکو تسلی بخش کچھ نہیں بتا سکتا، ہاں اسکو آسکریم، ڇوکوليٹ دیکر بھلا سکتا ہوں،تاڪہ پھر کبھی ایسا سوال نہ کر دے. اس گنہگار کے ایمان کی جانچ نہ کر دے. میرا دل جب ٥٠-١٠٠ روپیہ صدقہ دیکر ہی خوش ہو جاتا ہے تو پھر الله کی راہ میں گھر جیسی قیمتی چیز کیوں دوں.آج میں گھر دے دونگا تو پھر رہونگا کہاں.یہی ہے ہمارے ایمان کا کھوکھلا دعوا.الله ہم سبھی کو کامل ایمان، خشوع اور خضوع کے ساتھ نیک عمل کرنے والا اور الله کی راہ میں گھر ہی نہیں بلکے جان اور مال سبھی کچھ قربان کرنے والا مسلمان بناۓ ...آمین. جب میں یہ لکھ رہا تھا تو میری بڑی بیٹی (٨ سال) میرے پاس آکر پڑھنے لگی، پھر بیساختہ پوچھ بیٹھی کے اپنی اتنی ساری خامیوں کو ظاہر کرتے ہوئے آپ کو شرم نہیں آتی؟ ایک الگ سوال، شرم کس کو نہیں آئگي اپنی اتنی خامیوں پر، اگر ایمان کا تھوڑا بھی حصّہ باقی ہوگا تو لیکن یہ جاننا بھی توضروری ہے کہ جس ایمان پڑ ہم اتنے مست بنے پھرتے ہیں اسکی عملی حقیقت کیا ہے..اور ویسے بھی اتنی خامیوں والا صرف میں ہی تو نہیں؟ دوستوں، رشتےداروں اور سماج مےکتنے فیصد لوگ ہونگے جو میرے سے زیادہ مختلف ہونگے. جن میں میرے جیسے خامی نہیں، جو الله اور اسکے رسول کے محبت کا جھوٹا دعوا نہیں کرتے، جو قرآن اور حدیث کو طاق میں سجا کر نہیں رکھے ہوئے ہیں، اس پر عمل کرنا تو دور کی بات اسکو کھول کر پڑھنا بھی گوارا نہیں. الله میری ٤ سال کی بیٹی کے جذبے کو ہمیشہ سلامت رکھے ، دنیا کی محبت اور شیطان کا فریب مختلف مصلحتوں کے نام پر اسے اپنے قیمتی سامان کو الله کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ روک پا ے اور سبھی مسلمان کے ایمان کو عمل کی توفیق سے کامل کردے....آمین شاید ایسے ہی کمزور ایمان والوں کے لئے علامہ اقبال صاھب نے کہا ہے: خرد نے کہ دیا لا الہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں سراج اکرم |
7
Home
| About
Us | Objective | Scholarship
| Matrimonial
| Video
Library | Projects | Quran
Resources | Lend
a hand
|